
ایبٹ آباد (ویب ڈیسک)صحت کے نظام کی سنگین کوتاہی نے ایک اور معصوم جان نگل لی۔ صرف چار سالہ مصطفیٰ، جو والدین کی آنکھوں کا تارا تھا، بدقسمتی سے طبی سہولیات کی عدم دستیابی کا شکار ہو گیا۔
معصوم مصطفیٰ گھر میں کھیلتے ہوئے اچانک گر کر زخمی ہو گیا۔ والدین فوری طور پر اُسے ڈی ایچ کیو اسپتال لے گئے، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اسے ایبٹ آباد کمپلیکس ریفر کر دیا گیا۔
تاہم، کمپلیکس روانگی کے لیے درکار ایمبولینس تو موجود تھی، مگر ڈرائیور غائب۔ بچے کی حالت بگڑتی رہی، والد فریاد کرتا رہا، ماں رب کے حضور ہاتھ اٹھائے گڑگڑاتی رہی، لیکن نظام بے حس تماشائی بنا رہا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے، ننھا مصطفیٰ زندگی کی جنگ ہار گیا۔

چار سال کا وہ معصوم، جس نے ابھی زندگی کے رنگ دیکھنے تھے، جو ابھی مکمل جملے بولنا سیکھ رہا تھا، وقت سے پہلے قبر کی آغوش میں چلا گیا۔
یہ صرف ایک خاندان کا نہیں، بلکہ معاشرتی نظام کی ناکامی کا نوحہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
کب تک بنیادی طبی سہولتوں کی کمی بچوں کی جان لیتی رہے گی؟ کب تک ایمبولینس ڈرائیور کی غیر موجودگی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے گی؟ اور کب ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے؟
مصطفیٰ کی موت ایک صدمہ نہیں، ایک سوال ہے جس کا جواب پورا نظام صحت ابھی تک دینے سے قاصر ہے۔