
ہم اکثر خلا (Space) کو زمین سے باہر کے وسیع و عریض علاقے کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سائنسدانوں نے انسان کے دماغ کے اندر بھی “خلا” جیسا ایک پیچیدہ نظام دریافت کیا ہے؟
جی ہاں، ایک نئی سائنسی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارا دماغ بھی کسی “کائناتی نظام” کی طرح کام کرتا ہے — یعنی نیورونز کے جال میں ایسی گہرائی، وسعت اور ترتیب پائی جاتی ہے جو کہ کسی کہکشاں سے کم نہیں۔
🔬 تحقیق کا خلاصہ:
سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے سائنسدانوں نے جدید میتھامیٹکس اور کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے دماغ کے نیورون نیٹ ورک کا تجزیہ کیا، اور پایا کہ دماغ میں “ہائی-ڈائمینشنل” جیومیٹری موجود ہے۔ مطلب یہ کہ دماغ صرف 3D اسپیس میں نہیں، بلکہ اس سے کئی زیادہ پیچیدہ “خالی جگہوں” (high-dimensional holes) میں سوچنے، یاد رکھنے اور سیکھنے کا کام کرتا ہے۔
🌐 اس کا مطلب کیا ہے؟
اس دریافت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ بیک وقت مختلف سطحوں پر معلومات کو پروسیس کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم بظاہر چھوٹی باتوں میں بھی گہرے مطلب تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ تحقیق نیورولوجی، مصنوعی ذہانت (AI) اور دماغی بیماریوں کے علاج میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔
🤔 دلچسپ بات:
تحقیق کے مطابق جب دماغ کوئی نیا کام سیکھتا ہے تو وہ ان “ہائی-ڈائمینشنل اسپیسز” کو استعمال کرتا ہے، اور جیسے ہی سیکھنے کا عمل مکمل ہوتا ہے، یہ اسپیسز غائب ہو جاتی ہیں۔ گویا دماغ نئی “کائناتیں” بناتا اور پھر خود ہی ختم کر دیتا ہے۔
آپ کا دماغ، ایک کائنات — حیران کن، مگر سچ!
مزید سائنسی دلچسپ معلومات کے لیے ہماری ویب سائٹ پر نظر رکھیں۔