
کیپ ٹاؤن (رپورٹ ویب ڈیسک) جنوبی افریقہ میں گینڈوں کی بقا کے لیے ایک نیا اور غیر روایتی قدم اٹھایا گیا ہے جس میں ان کے سینگوں میں تابکار مادہ (radioactive substance) داخل کیا جا رہا ہے۔ یہ انوکھا اقدام یونیورسٹی آف وٹواٹرسرینڈ کے تحقیقاتی گروپ کی کاوش ہے، جو غیر قانونی شکار کے خلاف ایک طویل جنگ میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے کے تحت گینڈے کے سینگ میں ایسا کم مقدار میں تابکار عنصر شامل کیا جاتا ہے جو انسانوں یا خود جانوروں کے لیے خطرناک نہیں ہے، لیکن اس کی مدد سے سینگوں کی بین الاقوامی سطح پر شناخت آسان ہو جاتی ہے۔ تابکار مادے کی موجودگی سے دنیا کے کسی بھی ہوائی اڈے یا بندرگاہ پر نصب تابکاری شناختی اسکینر فوری طور پر اس سینگ کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
یہ طریقہ کار غیر قانونی شکاریوں اور اسمگلروں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے، کیونکہ وہ ان سینگوں کو دبئی، ویتنام، چین، اور دیگر ایشیائی ممالک میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں یہ نایاب سمجھے جاتے ہیں اور بڑی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف تکنیکی کامیابی نہیں بلکہ ایک اخلاقی فتح بھی ہے، کیونکہ یہ خطرے میں پڑی ایک نایاب نسل کو بچانے کی جانب ایک مضبوط قدم ہے۔ جنوبی افریقہ میں اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ گینڈے موجود ہیں، اور ان کی حفاظت عالمی ماحولیاتی نظام کے لیے نہایت اہم ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ طریقہ کامیاب ہو گیا تو دیگر افریقی ممالک اور ایشیائی ریاستیں بھی اسے اختیار کر سکتی ہیں، اور یوں ایک بین الاقوامی سطح پر تحفظِ حیوانات کی مضبوط لہر اُٹھ سکتی ہے۔