
ضلع ایبٹ آباد کے ٹھنڈیانی روڈ منصوبے نے اڑھائی ارب روپے سے سوا چھ ارب (6.25 ارب) تک لاگت میں غیرمعمولی اضافے اور بلیک ٹاپ کے بجائے پی سی سی (PCC) تعمیر کے فیصلے پر عوامی غم و غصہ اور سرکاری محکموں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ورلڈ بینک کے فنڈڈ پروجیکٹ کے تحت KITE (سی این ڈبلیو کا ونگ) کی نگرانی میں بننے والی اس سڑک پر مقامی افراد کا موقف ہے کہ پی سی سی ٹیکنالوجی پہاڑی علاقے کی موسمی حالات (برف باری، تیز ڈھلوان) میں ناکام ہوگی، جس سے مستقبل میں حادثات اور اربوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔
لاگت میں 150% اضافہ… کیوں؟
منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 2.5 ارب روپے تھا، جس میں روڈ کو بلیک ٹاپ بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔ تاہم، چند ماہ قبل بغیر واضح وجوہات کے لاگت بڑھا کر 6.25 ارب روپے کر دی گئی اور تعمیراتی معیار بلیک ٹاپ سے تبدیل کر کے پی سی سی (کنکریٹ) کر دیا گیا۔ عوام کا سوال ہے:
- "یہ اضافی 3.75 ارب روپے کہاں خرچ ہوں گے؟”
- "کیا یہ فیصلہ کسی مخصوص گروہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے؟”
پی سی سی: موسمی چیلنجز اور عوامی تحفظات
مقامی لوگوں اور انجینئرز کا کہنا ہے کہ ٹھنڈیانی جیسے برف زدہ علاقے میں پی سی سی روڈز پھٹ جاتی ہیں اور پھسلن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جبکہ بلیک ٹاپ (بٹومین) لچک دار ہونے کی وجہ سے زیادہ موزوں ہے۔ مزید برآں، تعمیر میں مقامی خاکے اور کم معیار کے میٹریل کے استعمال کی اطلاعات بھی تشویشناک ہیں۔
عوامی مطالبہ اور سرکاری خاموشی
علاقے کے باشندے احتجاج کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ:
- منصوبے کی لاگت اور پی سی سی کے فیصلے کی شفاف تفصیلات جاری کی جائیں۔
- روڈ کو دوبارہ بلیک ٹاپ بنانے کی منظوری دی جائے۔
- کم معیار کے میٹریل کے استعمال کی تحقیقات کی جائیں۔
حکومت اور محکمہ مواصلات کی طرف سے اب تک کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا، جبکہ KITE کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ "منصوبہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہے”۔ تاہم، عوام اس بیان کو کاغذی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
اگر لاگت اور تعمیراتی معیار پر سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دیا گیا تو احتجاجی مہم مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر پی سی سی روڈ ناکام ہوئی تو نہ صرف 6.25 ارب روپے ضائع ہوں گے، بلکہ علاقے کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوگی۔